Wednesday, August 20, 2014

احتجاج ٬ڈرامے اور حقیقت کی مار

احتجاج ٬ڈرامے اور حقیقت کی مار


ماں:  یہ کپڑےکیوں پھٹےہیں اور آنکھ پہ نیل کیساہے

بیٹا:  کچھ دوستوں نےمل کےپروگرام بنایا تھا کہ سکول نہیں جائیں گےاورسب مل کےسکول کےباہر احتجاج کریں گے۔

ماں:  لیکن کیوں؟

بیٹا:  ہم نےسوچا تھا کہ سکول کےبچوں اور کچھ باہر کےلوگوں کو ساتھ ملا کر سکول کےباہر تب  تک احتجاج کریں گےجب تک سکول کےپرنسپل کو تبدیل نہیں کر دیا جاتا
ابھی ہم نےاحتجاج شروع ہی کیا تھا اور ہم بچوں اور اساتذہ کو سکول جانےسے روک رہے تھے کہ سکول کے پرنسپل نےپولیس بلوا لی اور انہوں نےجو ہاتھ آیا اسکی خوب پٹائ کی٬کچھ لوگ میری طرح بھاگ گۓ اور باقیوں کو پولیس تھانےلےگئ

ماں: کیا تم لوگوں کو نہیں پتہ تھاکہ تمھاری اس حرکت کا کیانتیجہ نکلےگا؟

بیٹا: جب ہم پروگرام بنارہےتھےتو میں نےدوستوں کو کہا تھا کہ پٹائ ہو سکتی ہے
لیکن دوستوں نےکہا :
"کہ زمانہ بدل گیاہے
ٹی وی پہ دیکھو لیڈرعوام کو سڑکوں پر لا کر پارلیمنٹ کاگھیراوٴ کرنےکی کوششیں کر رہے ہیں٬اسمبلی کارکنوں کو اندر جانےسےروکنےکی کوشش کر رہے ہیں٬کس نےان کی پٹائ کی یا انہیں جیل میں ڈالا؟"
ہمیں اسکی بات سمجھ آگیٴ اور اس کے ساتھ احتجاج میں شامل ہو گۓ

ماں: تمہیں کتنی بار منع کیاہے کہ ٹی وی اور فلمیں دیکھ کر ہیرو یا ولن  بننےکی کوشش نہ کیا کرو
دیکھو ان سب ڈراموں اور فلموں کےپیچھےجو پروڈیوسر ہوتاہےوہ سب سنبھال لیتاہےوہ جب تک چاہتاہےولن کو بد معاشی کی اداکاری کراتا رہتاہےاور کوئ قانون اس پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور پھر جب چاہےاسےاندر بھی کروا سکتاہے
اسی طرح پروڈیوسر فلم کے ہیرو سے بہادری کے ایسے ڈائیلاگ اور ایسی حرکتیں کرواتاہےکہ اصلی ذندگی میں ہیرو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا

اب پتہ چلا کہ ڈرامے اور حقیقت میں کیافرق ہے؟

بیٹا: جی امی خوب پتہ چل گیاہے
ماں: کاش یہ بات مار کھاۓبغیر ہی سمجھ آجاتی!